فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پھر جب اس نے اسے جنا تو کہا اے میرے رب! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو اس نے جنا اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں، اور بے شک میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
1- اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہےاور عذر بھی۔ حسرت، اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر، اس طرح کہ نذرسے مقصود تو تیری رضا کے لئے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اوریہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہی ہے۔ (فتح القدیر ) 2- حافظ ابن کثیر نے اس سے اور احادیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہئے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتاہے،اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ والأَمْرُ فِيهِ وَاسِعٌ ( تحفۃ المودود) 3- اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا (چھوتا) ہے جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے (عیسیٰ عليه السلام) کو محفوظ رکھا ہے۔ [ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلا مَسَّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّهِ إِيَّاهُ ، إِلا مَرْيَمَ وَابْنَهَا ] (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، مسلم، کتاب الفضائل)