فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔
1- اللہ نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آگئی۔ لڑکی کی شرم وحیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے۔ اور مردوں کی طرح حیا وحجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لیے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ 2- بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے صراحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب (عليہ السلام) کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (عليہ السلام) کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لیے یہاں حضرت شعیب (عليہ السلام) کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب (عليہ السلام) کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے بچیوں کے ساتھ جو ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جاکر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی داعیہ پیدا ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔ 3- یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم وستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔