سورة النمل - آیت 82

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔ 2- یہ دابہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا (قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور کا نکلنا ہے۔ (صحيح مسلم كتاب الفتن، باب في الآيات التي تكون قبل الساعة، والسنن ) دوسری روایت میں ہے (سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی ، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے ، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے فوراً بعد ہی ظاہر ہو جائے گی (صحيح مسلم، باب في خروج الدجال ومكثه في الأرض) 3- یہ جانور کے نکلنے کی علت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی یہ نشانی اس لیے دکھلائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں یا آیتوں (احکام) پر یقین نہیں رکھتے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ وہ جانور اپنی زبان سے ادا کرے گا۔ تاہم اس جانور کے لوگوں سے کلام کرنے میں تو کوئی شک نہیں کیونکہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے۔