إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
بے شک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں۔
1- یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ ونصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔ 2- یعنی وہ حق سے مکمل طور پر گریزاں اور متنفر ہیں کیونکہ بہرہ آدمی رو در رو بھی کوئی بات نہیں سن پاتا چہ جائیکہ اس وقت سن سکے جب وہ منہ موڑ لے اور پیٹھ پھیرے ہوئے ہو۔ قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سماع موتی کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔ مردے کسی کی بات نہیں سن سکتے۔ البتہ اس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جہاں سماعت کی صراحت کسی نص سے ثابت ہوگی۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ مردے کو جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے (صحيح بخاری نمبر 338 ، صحيح مسلم نمبر 2201) یا جنگ بدر میں کافر مقتولین کو جو قلیب بدر میں پھینک دیئے گئے تھے۔ نبی (ﷺ) نے خطاب فرمایا، جس پر صحابہ نے کہا ”آپ (ﷺ) بے روح جسموں سے گفتگو فرما رہے ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ”یہ تم سے زیادہ میری بات سن رہے ہیں“۔ یعنی معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات مردہ کافروں کو سنوا دی (صحيح بخاری نمبر 1307)