قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ
جنوں میں سے ایک طاقتور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤنگا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقیناً پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔
1- اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لیے حضرت سلیمان (عليہ السلام) صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔ 2- اس سےمعلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے . کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا) جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھالائے۔ اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے، 4،3 گھنٹے میں طے کرلے۔ ایک طاقت ور سے طاقت ور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔ 3- یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔