كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ
ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔
1- أَيْكَةَ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب (عليہ السلام) کی قوم اور بستی (مدین) کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی ہیں گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کی نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب (عليہ السلام) کا دائرۂ نبوت اور حدود دعوت وتبلیغ، مدین سے لے کر اس نواحی آبادی تک تھا، جہاں ایکہ درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب (عليہ السلام) تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ، چونکہ قوم نہیں، بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا، جس طرح کہ دوسرے انبیا کے ذکر میں ہے۔ البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (عليہ السلام) کا نام لیاگیا ہے، وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے، کیونکہ مدین، قوم کا نام ہے۔ ﴿وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا﴾ (الأعراف: 85) بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ اور مدین کو الگ الگ بستیاں قرار دے کر کہا ہے کہ یہ مختلف دو امتیں ہیں، جن کی طرف باری باری حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھیجا گیا۔ ایک مرتبہ مدین کی طرف اور دوسری مرتبہ اصحاب الایکہ کی طرف۔ لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے، ﴿أَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ﴾ کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا، یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیاجارہا ہے، جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے، دو نہیں۔