وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا
اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے۔ بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔
1- اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کےبندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لیے وہ عذاب جہنم سے بھی پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کےباوجود اللہ کےعذاب اور اس کےمواخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادات و طاعات الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60) ”اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں۔ اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں“ ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انہیں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونا ہے، بلکہ اس کے ساتھ، اس کا بھی کہ ان کا صدقہ وخیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، نہیں، اے ابوبکر کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں۔ (الترمذی، كتاب التفسير، سورة المؤمنون)۔