لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
نہ اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ، یا اپنے باپوں کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھو پھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا (اس گھر سے) جس کی چابیوں کے تم مالک بنے ہو، یا اپنے دوست (کے گھر) سے۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ۔ پھر جب تم کسی طرح کے گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کہو، زندہ سلامت رہنے کی دعا جو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی بابرکت، پاکیزہ ہے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
1- اس کا ایک مطلب تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جہاد میں جاتے ہوئے صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ، آیت میں مذکور معذورین کو اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے اور انہیں گھر کی چیزیں بھی کھانے پینے کی اجازت دے دیتے۔ لیکن یہ معذور صحابہ (رضی الله عنہم) اس کے باوجود، مالکوں کی غیر موجودگی میں، وہاں سے کھانا پینا جائز نہ سمجھتے، اللہ نے فرمایا کہ مذکورہ افراد کے لئے اپنے اقارب کے گھروں سے یا جن گھروں کی چابیاں ان کے پاس ہیں، ان کے کھانے پینے میں کوئی حرج (گناہ) نہیں ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تندرست صحابہ (رضی الله عنہم) ، معذور صحابہ (رضی الله عنہم) کے ساتھ بیٹھ کر کھانا، اس لئے ناپسند کرتے کہ وہ معذوری کی وجہ سے کم کھائیں گے اور یہ زیادہ کھا جائیں گے، اس طرح ان کے ساتھ کھانے میں ظلم کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ اسی طرح خود معذور صحابہ (رضی الله عنہم) بھی، دیگر لوگوں کے ساتھ کھانا اس لئے پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ ان کے ساتھ کھانے میں کراہت محسوس نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لئے وضاحت فرما دی کہ اس میں کوئی گناہ والی بات نہیں ہے۔ 2- تاہم بعض علما نے صراحت کی ہے کہ اس سے وہ عام قسم کا کھانا مراد ہے جس کے کھا جانے سے کسی کو گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ایسی عمدہ چیزیں جو مالکوں نے خصوصی طور پر الگ چھپا کر رکھی ہوں تاکہ کسی کی نظر ان پر نہ پڑے، اسی طرح ذخیرہ شدہ چیزیں، ان کا کھانا اور ان کو ا پنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔ (ایسرالتفاسیر) اسی طرح یہاں بیٹوں کے گھر انسان کے اپنے ہی گھر ہیں، جس طرح حدیث میں آتا ہے [ أَنْتَ وَمَالُكَ لأَبِيكَ ] (ابن ماجہ نمبر 2291۔ مسند أحمد 2 / 179 ،204، 214) تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ دوسری حدیث ہے ولد الرجل من كسبه (ابن ماجہ نمبر 2137 ، أبو داود نمبر 3528، وصححه الألباني) آدمی کی اولاد، اس کی کمائی سے ہے۔ 3- اس میں ایک اور تنگی کا ازالہ فرما دیا گیا ہے۔ بعض لوگ اکیلے کھانا پسند نہیں کرتے تھے، اور کسی کو ساتھ بٹھا کر کھانا ضروری خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اکھٹے کھا لو یا الگ الگ، دونوں طرح جائز ہیں، گناہ کسی میں نہیں۔ البتہ اکٹھے ہو کر کھانا زیادہ باعث برکت ہے، جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ 4- اس میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا ادب بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام عرض کرو، آدمی کے لئے اپنی بیوی یا اپنے بچوں کو سلام کرنا بالعموم گراں گزرتا ہے۔ لیکن اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایسا کریں۔ آخر اپنے بیوی بچوں کو سلامتی کی دعا سے کیوں محروم رکھا جائے۔