يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لازم ہے کہ تم سے اجازت طلب کریں وہ لوگ جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوئے اور وہ بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہیں پہنچے، تین بار، فجر کی نماز سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین تمھارے لیے پردے (کے وقت) ہیں، ان کے بعد نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر۔ تم پر کثرت سے چکر لگانے والے ہیں، تمھارے بعض بعض پر۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
1- غلاموں سے مراد، باندیاں اور غلام دونوں ہیں ثَلاثَ مَرَّاتٍ کا مطلب اوقات، تین وقت ہیں، یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ انسان گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بہ کار خاص مصروف، یا ایسے لباس میں ہوسکتا ہے کہ جس میں کسی کا ان کو دیکھنا جائز اور مناسب نہیں۔ اس لئے ان اوقات ثلاثہ میں گھر کے ان خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت طلب کئے گھر کے اندر داخل ہوں۔ 2- عَوْرَاتٍ، عَوْرَةٌ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی خلل اور نقص کے ہیں۔ پھر اس کا اطلاق ایسی چیز پر کیا جانے لگا جس کا ظاہر کرنا اوراس کو دیکھنا پسندیدہ نہ ہو۔ خاتون کو بھی اسی لئے عورت کہا جاتا ہے کہ اس کا ظاہر اور عریاں ہونا اور دیکھنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ یہاں مذکورہ تین اوقات میں عورات کہا گیا ہے یعنی یہ تمہارے پردے اور خلوت کے اوقات ہیں جن میں تم اپنے مخصوص لباس اور ہیئت کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ 3- یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آجاسکتے ہیں۔ 4- یہ وہی وجہ ہے جو حدیث میں بلی کے پاک ہونے کی بیان کی گئی ہے۔ [ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ؛ إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ ]، ”بلی ناپاک نہیں ہے اس لئے کہ وہ بکثرت تمہارے پاس (گھر کے اندر) آنے جانے والی ہے“۔ (أبو داود، كتاب الطہارة باب سؤر الهرة، ترمذی، كتاب وباب مذكور وغيره) خادم اور مالک، ان کو بھی آپس میں ہر وقت ایک دوسرے سے ملنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی ضرورت عامہ کے پیش نظر اللہ نے یہ اجازت مرحمت فرما دی، کیونکہ وہ علیم ہے، لوگوں کی ضروریات اور حاجات کو جانتا ہے اور حکیم ہے، اس کے ہر حکم میں بندوں کے مفادات اور حکمتیں ہیں۔