أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
1- صَافَّاتٌ کے معنی ہیں باسطات اور اس کا مفعول أَجْنِحَتَهَا محذوف ہے۔ اپنے پر پھیلائے ہوئے۔ ﴿مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ﴾میں پرندے بھی شامل تھے۔ لیکن یہاں ان کاذکر الگ سے کیا، اس لئے کہ پرندے، تمام حیوانات میں ایک نہایت ممتاز مخلوق ہیں، جو اللہ کی قدرت کاملہ سے آسمان وزمین کے درمیان فضا میں اڑتے ہوئے اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ یہ مخلوق اڑنے پر بھی قدرت رکھتی ہے جس سے دیگر تمام حیوانات محروم ہیں اور زمین پر چلنے پھرنے کی قدرت بھی رکھتی ہے۔ 2- یعنی اللہ نے ہر مخلوق کو یہ علم الہام والقا کیا ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح کس طرح کرے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخت واتفاق کی بات نہیں بلکہ آسمان وزمین کی ہر چیز کا تسبیح کرنا اور نماز ادا کرنا یہ بھی اللہ ہی کی قدرت کا ایک مظہر ہے، جس طرح ان کی تخلیق اللہ کی ایک صنعت بدیع ہے، جس پر اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں۔ 3- یعنی اہل زمین واہل آسمان جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح وتحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقیناً وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہوگی۔