حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ
یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے۔
1- مترفین سے مراد آسودہ حال (متنعمین) ہیں۔ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔اور توبہ و ندامت کی طرف نہیں آتی۔ یہاں مترفین سے مراد وہ کفار ہیں، جنہیں مال و دولت کی فراوانی اور اولاد واحفاد سے نواز کر مہلت دی گئی۔ جس طرح کہ چند آیات قبل ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (ﷺ) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔