أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
1- یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل وانصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہرچیز کا علم ہے۔ 2- بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کر سکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں جو صرف عقلا کے ساتھ خاص ہے۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا «مَنْ فِي السَّمَواتِ» سے مراد فرشتے ہیں ﴿وَمَنْ فِي الأَرْضِ﴾ سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں ﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِه﴾ (الاسراء:44)۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالٰی کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انہیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے۔ (حم السجدہ: 37) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے پوچھا، جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہو جاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحيح بخاری، بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان - مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی، أبواب السفر، باب ما يقول في سجود القرآن تحفة الأحوذي، صفحہ 402 ، ابن ماجہ 1053) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد 15اور النحل 48، 49 میں بھی کیا گیا ہے۔ 3- یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ 4- یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انہیں بھی مجال انکار نہیں۔ 5- کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔