يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی اور نہ کوئی سفارش اور کافر لوگ ہی ظالم ہیں۔
1- یہود و نصاریٰ اور کفار ومشرکین اپنے اپنے پیشواؤں یعنی نبیوں، ولیوں، بزرگوں، پیروں، مرشدوں وغیرہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اسے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منواسکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔ اسی کو وہ شفاعت کہتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے کہ ہماے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے، اور بخشوا کر اٹھیں گے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات واحادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بےشک ہوگی، مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے۔ جنہیں اللہ اجازت دے گا۔ اور صرف اسی بندے کے بارے میں کرسکیں گے جس کے لئے اللہ اجازت دے گا۔ اور اللہ صرف اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا۔ یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے، انبیا ورسل بھی، اور شہدا وصالحین بھی۔ مگر اللہ پر ان میں کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾ (الأنبياء : 28)۔