يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس دن اس حال میں اکٹھا کریں گے کہ نیلی آنکھوں والے ہوں گے۔
1- صُورٌ سے مراد وہ قَرْنٌ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (عليہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی (مسند احمد: 2/191)، ایک اور حدیث میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”اسرافیل (عليہ السلام) نے قرن کا لقمہ بنایا ہوا ہے، (یعنی اسے منہ سے لگائے کھڑا ہے) پیشانی جھکائی یا موڑی ہوئی ہے، رب کے حکم کے انتظار میں ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ اس میں پھونک مار دے“۔ (ترمذی، باب صفة القيامة، باب ما جاء في الصور) حضرت اسرافیل (عليہ السلام) کے پہلے نفخے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے نفخے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا نفخہ مراد ہے۔