لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو، جب تک تم نے انھیں ہاتھ نہ لگایا ہو، یا ان کے لیے کوئی مہر مقرر نہ کیا ہو اور انھیں سامان دو، وسعت والے پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا ہے، نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے۔
1- یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لئے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لئے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سدباب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتے ہیں۔