إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ
جب تیری بہن چلی جاتی تھی، پس کہتی تھی کیا میں تمھیں اس کا پتا دوں جو اس کی پرورش کرے؟ پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے۔ اور تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور ہم نے تجھے آزمایا، خوب آزمانا، پھر کئی سال تو مدین والوں میں ٹھہرا رہا، پھر تو ایک مقرر اندازے پر آیا اے موسیٰ !
1- یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (عليہ السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (عليہ السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (عليہ السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليہ السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (عليہ السلام) نے اللہ کی تدبیر ومشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔ 2- یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (عليہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا۔ 3- فُتُونٌ دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابْتَلَيْنَاكَ ابْتِلاءً یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حُجْرَةٌ کی حُجُورٌاور بَدْرٌ کی بُدُورٌکی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔ 4- یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔ 5- یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا۔ یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔