وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔
1- روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں؟۔ 2- یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحيح بخاری- سورة مريم، ومسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون .....)