فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا
پھر اس نے ان کی طرف سے ایک پردہ بنالیا تو ہم نے اس کی طرف اپنا خاص فرشتہ بھیجا تو اس نے اس کے لیے ایک پورے انسان کی شکل اختیار کی۔
1- یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ 2- رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل (عليہ السلام) ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بے دھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالٰی تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قراءتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قراءت میں ہے) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتًا نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہوگی۔ ’’أَرْسَلَنِي، يَقُولُ لَكِ أَرْسَلْتُ رَسُولِي إِلَيْكِ لأَهَبَ لَكِ‘‘ (أيسر التفاسير) ”یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا“ اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔