سورة الكهف - آیت 105

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات تشریعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ وتوضیح کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔ 2- یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوگی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو موحدین کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہونگی، جب کہ ان کے نامہ اعمال حسنات سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہوگا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے“، پھر آپ (ﷺ) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورہ کہف)