سورة الكهف - آیت 65

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورہ کہف) 2- رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔ 3- اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) بھی بہرہ ور تھے، بعض تکوینی امور کا علم ہے جس اللہ تعالٰی نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن وحدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالٰی نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کر دی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کر دیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔