سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا
عنقریب وہ کہیں گے تین ہیں، ان کا چوتھا ان کا کتا ہے اور کہیں گے پانچ ہیں، ان کا چھٹا ان کا کتا ہے، بن دیکھے پتھر پھینکتے ہوئے اور کہیں گے سات ہیں، ان کا آٹھواں ان کا کتا ہے۔ کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے زیادہ واقف ہے، انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا، سو تو ان کے بارے میں سرسری بحث کے سوابحث نہ کر اور ان لوگوں میں سے کسی سے ان کے بارے میں فیصلہ طلب نہ کر۔
1- یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔ 2- یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔ 3- اللہ تعالٰی نے صرف تین قول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بِالْغَیْبِ (ظن وتخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر) 4- بعض صحابہ (رضی الله عنہم) سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر) 5- یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفاء کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کردی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث وتکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعیین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 6- یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔