وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فوقیت بخشی ہے، پس وہ لوگ جنھیں فوقیت دی گئی ہے کسی صورت اپنا رزق ان (غلاموں) پر لوٹانے والے نہیں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں کہ وہ اس میں برابر ہوجائیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔
1- یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اتنا مال اور اسباب دنیا نہیں دیتے کہ تمہارے برابر ہو جائیں تو اللہ تعالٰی کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اللہ کا شریک اور اس کے برابر قرار دے دو، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے فطری نظام کے مطابق ہے۔ اسے جبری قوانین کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ اشتراکی نظام میں ہے۔ یعنی معاشی مساوات کی غیر فطری کوشش کی بجائے ہر کسی کو معاشی میدان میں کسب معاش کے لئے مساوی طور پر دوڑ دھوپ کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔ 2- کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے غیر اللہ کے لیے نذر نیاز نکالتے ہیں اور یوں کفران نعمت کرتے ہیں۔