سورة البقرة - آیت 182
فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
پھر جو شخص کسی وصیت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یا گناہ سے ڈرے، پس ان کے درمیان اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1-جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتے دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور إِثْمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے (ایسرالتفاسیر) یا إِثْمًا سے مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل نہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل وانصاف کا اہتمام ضروری ہے، ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب، اس کے اخروی نجات کے نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔