وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔
1- ”اس شہر“ سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صَانَهَا اللهُ عَنِ الشُّرُورِ وَالْفِتَنِ۔ یہاں انعامات الٰہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کر دیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انہیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔