سورة یوسف - آیت 76

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو اس نے اس کے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں سے ابتدا کی، پھر اسے اس کے بھائی کے تھیلے سے نکال لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی، ممکن نہ تھا کہ بادشاہ کے قانون میں وہ اپنے بھائی کو رکھ لیتا مگر یہ کہ اللہ چاہے، ہم جسے چاہتے ہیں درجوں میں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے سے اوپر ایک سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ 2- یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف (عليہ السلام) کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر) 3- یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔ 4- جس طرح یوسف (عليہ السلام) کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔ 5- یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالٰی ہے۔