ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ
یہ اس لیے کہ وہ جان لے کہ بے شک میں نے عدم موجودگی میں اس کی خیانت نہیں کی اور یہ کہ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کی چال کو کامیاب نہیں کرتا۔
1- جب جیل میں حضرت یوسف (عليہ السلام) کو ساری تفصیل بتلائی گئی تو اسے سن کر یوسف (عليہ السلام) نے کہا اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے یہ کہا اور بعض مفسرین کے نزدیک زلیخا کا قول ہے اور مطلب یہ ہے کہ یوسف (عليہ السلام) کی غیر موجودگی میں بھی اسے غلط طور پر متھم کر کے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے خاوند کی خیانت نہیں کی اور کسی بڑے گناہ میں واقع نہیں ہوئی۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ 2- کہ وہ اپنے مکر وفریب میں ہمیشہ کامیاب ہی رہیں، بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے۔ بالآخر جیت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے، گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔