قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
اس نے کہا کاش! واقعی میرے پاس تمھارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔
* قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت یا اولاد کی قوت مراد ہے اور رکن شدید (مضبوط آسرا) سے خاندان، قبیلہ یا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارامراد ہے۔ یعنی نہایت بےبسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش! میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی یا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، میں ان بد قماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کر لیتا۔ حضرت لوط (عليہ السلام) کی یہ آرزو اللہ تعالٰی پر توکل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم و مطلب بھی یہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہری اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ پر توکل کیا جائے۔ یہ توکل کا نہایت غلط مفہوم ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاؤ اور کہو کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس لیے حضرت لوط (عليہ السلام) نے جو کچھ کہا، ظاہری اسباب کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا پیغمبر جس طرح عالم الغیب نہیں ہوتا اسی طرح مختار کل بھی نہیں ہوتا، (جیسا کہ آج کل لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے) اگر نبی دنیا میں اختیارات سے بہرہ ور ہوتے تو یقییناً حضرت لوط (عليہ السلام) اپنی بےبسی کا اور اس آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ میں کیا۔