فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ
تو جب ان کے ہاتھوں کو دیکھا کہ اس کی طرف نہیں پہنچتے تو انھیں اوپرا جانا اور ان سے ایک قسم کا خوف محسوس کیا، انھوں نے کہا نہ ڈر! بے شک ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
1- حضرت ابرا ہیم (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (عليہ السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ 2- اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ﴿إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ﴾ (الحجر:52) ”ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے“، چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (عليہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔