أُولَٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ۘ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ
یہ لوگ کبھی زمین میں عاجز کرنے والے نہیں اور نہ کبھی ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار ہیں، ان کے لیے عذاب دگنا کیا جائے گا۔ وہ نہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ دیکھا کرتے تھے۔
1- یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کو کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ دیکھی۔ گویا: ﴿فَمَآ اَغْنٰى عنہمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ﴾ (الاحقاف:26) ”نہ ان کے کانوں نے انہیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ ان کی آنکھوں اور دلوں نے“، کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے، جس طرح کہ وہ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے کہیں گے، ﴿لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ (الملک:10) ”اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج جنہم میں نہ جاتے“۔