قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
کہہ دے اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق آگیا ہے، تو جو سیدھے راستے پر آیا تو وہ اپنی جان ہی کے لیے راستے پر آتا ہے اور جو گمراہ ہوا وہ اسی پر گمراہ ہوتا ہے اور میں تم پر ہرگز کوئی نگران نہیں ہوں۔
1- حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے، جس میں توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ پر ایمان نہایت ضروری ہے۔ 2- یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا کہ قیامت والے دن اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔ 3- یعنی اس کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا کہ قیامت کو جہنم کی آگ میں جلے گا۔ گویا کوئی ہدایت کا راستہ اپنائے گا، تو اس سے کوئی اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہو جائے گا اور اگر کوئی کفر اور ضلالت کو اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کی حکومت و طاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہو جائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی ترغیب اور کفر وضلالت سے بچنے کی تاکید وترتیب، دونوں سے مقصد انسانوں ہی کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ کی اپنی کوئی غرض نہیں۔ 4- یعنی یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی ہے کہ میں ہر صورت میں تمہیں مسلمان بنا کر چھوڑوں بلکہ میں تو صرف بشیر اور نذیر اور مبلغ اور داعی ہوں۔ میرا کام صرف اہل ایمان کو خوشخبری دینا، نافرمانوں کو اللہ کے عذاب اور اس کے مواخذے سے ڈرانا اور اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ ہے۔ کوئی اس دعوت کو مان کر ایمان لاتا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی نہیں مانتا تو میں اس بات کا مکلف نہیں ہوں کہ اس سے زبردستی منوا کر چھوڑوں۔