سورة یونس - آیت 68

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔ وہ پاک ہے، وہی بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تمھارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کہتے ہو جو نہیں جانتے؟

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اور جو کسی کا محتاج نہ ہو، اسے اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد تو سہارے کے لئے ہوتی ہے اور جب وہ سہارے کا محتاج نہیں تو پھر اسے اولاد کی کیا ضرورت؟ 2- جب آسمان اور زمین کی ہرچیز اسی کی ہے تو ہرچیز اسی کی مملوک اور غلام ہوئی۔ پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اسے ہوتی ہے، جسے کچھ مدد اور سہارے کی ضرورت ہو، جس کا حکم آسمان وزمین کی ہر چیز پر چلتا ہو، اسے کیا ضرورت لاحق ہوسکتی ہے؟ علاوہ ازیں اولاد کی ضرورت وہ شخص بھی محسوس کرتا ہے جو اپنے بعد مملوکات کا وارث دیکھنا یا پسند کرتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی ذات کو تو فنا ہی نہیں اس لئے اللہ کے لئے اولاد قرار دینا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (مريم: 90-91). ”اس بات سے کہ وہ کہتے ہیں رحمٰن کی اولاد ہے، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں“۔