وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
1- مَرَدَ اور تَمَرَّدَ کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَمْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے۔ ﴿مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ﴾کے معنی ہوں گے تَجَرَّدُوا عَلیَ النِّفَاقِ، گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار اور استمرار ہے۔ 2- کتنے واضح الفاظ میں نبی (ﷺ) سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ 3- اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔