سورة التوبہ - آیت 5

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد وہی چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور اعلان براءت 10 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، کیونکہ حرمت والے مہینوں کے گزرنے کے بعد مشرکین کو پکڑنے اور قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں أَشْهُرٌ حُرُمٌ سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں أَشْهُرٌ حُرُمٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی روسے ان چارمہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان براءت کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔ 2- بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو۔ اور بعض مفسرین نے ﴿وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ﴾ ( البقرة ۔191) ”مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے“۔ اس آیت سے تخصیص کی ہے اور صرف حدود حرم سے باہر حل میں قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر) 3- یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔ 4- یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہاں جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔ 5- یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) نے مانعین زکوۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا اور فرمایا: [ والله لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاة وَالزَّكَاةِ ] (متفق عليه ، بحوالہ مشكاة كتاب الزكاة، فصل ثالث) ”اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کریں گے“۔ یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔