مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
1- جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے۔ یہ کفر واسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی ۔ اسی لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز وعدم جواز سے قطع نظر حالات وظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں بھی ضرورت زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی تھی۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کر لی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ وغیرہ نے یہ مشورہ دیا کہ کفر کی قوت وشوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی رائے اس کے برعکس یہ تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی (ﷺ) نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں، ﴿حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ کا مطلب ہے کہ اگر ملک میں کفر کا غلبہ ہے (جیسا کہ اس وقت عرب میں کفر کا غلبہ تھا) تو کافروں کی خوں ریزی کرکے کفر کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز کرکے تم نے جو فدیہ قبول کیا ہے تو گویا، زیادہ بہتر صورت کو چھوڑ کر کم تر صورت کو اختیار کیا ہے جو تمہاری غلطی ہے۔ بعد میں جب کفر کا غلبہ ختم ہو گیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کر دے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات وظروف کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔