وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسا کر۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
1- یعنی اگر حالت جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکہ اور فریب ہو، تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقیناً اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے ۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمانوں کا مفاد ہو ۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قوت ووسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اورہزیمت خوردہ تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا ضروری ہے ۔ (سورۂ محمد: 35) ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ﴾ (الأنفال: 39)