إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
اگر تم فیصلہ چاہو تو یقیناً تمھارے پاس فیصلہ آ چکا اور اگر باز آجاؤ تو وہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر تم دوبارہ کرو گے تو ہم (بھی) دوبارہ کریں گے اور تمھاری جماعت ہرگز تمھارے کچھ کام نہ آئے گی، خواہ بہت زیادہ ہو اور (جان لو) کہ بے شک اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔
1- ابوجہل وغیرہ رؤسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ ”یا اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کر دے“ اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لیے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرما دی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ تم فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لیے اب تم کفر سے باز آجاؤ ، تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔