الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
1- یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معبتر ہے جس کی تفصیلات محمد رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمائی ہیں۔ اس آیت سے بھی تصور (وحدت ادیان) کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ 2- معروف، وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا ہے ۔ 3- یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی) یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اس کا قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی بھی اجازت دی ۔ وغیرہ اور آپ (ﷺ) نے بھی فرمایا ہے کہ ”مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے“۔ ( مسند أحمد جلد 5۔ ص 266جلد ۔ 6،ص116،233) لیکن افسوس! اس امت نے اپنے طور پر رسوم ورواج کے بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور جاہلیت کے طوق زیب گلو کر لیے ہیں، جن سے شادی اور مرگ دونوں عذاب بن گئے ہیں ۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالَى ۔ 4- ان آخری الفاظ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں، خاسر اور ناکام ہوں گے ۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی وفراوانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر ومشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں۔ لیکن ان کی یہ ترقی عارضی وبطور امتحان واستدراج ہے۔ یہ ان کی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ (جیسا وہاں بھی وضاحت کی گئی تھی) کیوں کہ جو نور آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن مجید ہی ہے اس لیے اس (نور) سے خود نبی کریم (ﷺ) کی ذات مراد نہیں ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔ (مزید دیکھئے سورۂ المائدۂ آیت 15 کا حاشیہ)