ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر ہم نے اس بدحالی کی جگہ خوشحالی بدل کر دے دی، یہاں تک کہ وہ خوب بڑھ گئے اور انھوں نے کہا یہ تکلیف اور خوشی تو ہمارے باپ دادا کو (بھی) پہنچی تھی۔ تو ہم نے انھیں اچانک اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔
1- یعنی فقروبیماری کے ابتلا سے بھی جب ان کے اندر رجوع الی اللہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوا تو ہم نے ان کی تنگ دستی کو خوش حالی سے اور بیماری کو صحت وعافیت سے بدل دیا تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں ۔ لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ کبھی تنگی آگئی کبھی خوش حالی آگئی، کبھی بیماری تو کبھی صحت ، کبھی فقیری تو کبھی امیری ۔ یعنی تنگ دستی کا پہلا علاج ان کے لیے موثر ثابت ہوا، نہ خوش حالی، ان کے اصلاح احوال کے لیے کارگر ثابت ہوئی ۔ وہ اسے لیل ونہار کی گردش ہی سمجھتے رہے اور اس کے پیچھے کار فرما قدرت الٰہی اور اس کے ارادہ کو سمجھنے میں ناکام رہے تو ہم نے پھر انہیں اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا ۔ اسی لیے حدیث میں مومنوں کا معاملہ اس کے برعکس بیان فرمایا گیا ہے ۔ کہ وہ آرام وراحت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تکلیف پہنچنے پر صبر سے کام لیتے ہیں ، یوں دونوں ہی حالتیں ان کے لیے خیر اور اجر کا باعث ہوتی ہیں۔ ( صحيح مسلم- كتاب الزهد باب المؤمن أمره كله خير)