قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جو بڑے بنے ہوئے تھے، اے شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ہمراہ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے ضرور ہی نکال دیں گے، یا ہر صورت تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے۔ اس نے کہا اور کیا اگرچہ ہم ناپسند کرنے والے ہوں؟
1- ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان وتوحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ یا تو اپنے آبائی مذہب پر واپس آجاؤ، نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔ اہل ایمان کے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے، کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا ۔ لیکن حضرت شعیب (عليہ السلام) کو بھی ملت آبائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا ہم مذہب ہی سمجھتے تھے، گو حقیقتاً ایسا نہ ہو ۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کر لیا ہو ۔ 2- یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لیے اور واو حالیہ ہے ۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دو گے درآں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو ۔