سورة الاعراف - آیت 73

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کسی برے طریقے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے۔ ٩ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو ( صحيح بخاری ، كتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف، صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين ) ان کی طرف حضرت صالح (عليہ السلام) نبی بناکر بھیجے گئے ۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ حضرت صالح (عليہ السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انہیں تاکید کردی گئی، کہ اسے بری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے ۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑا (صَيْحَةٌ ۔ سخت چیخ اور رَجْفَةٌ ۔ زلزلہ ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔