وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
اور وہ ہرگز اس کی آرزو کبھی نہیں کریں گے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
1-حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے، یعنی یہودیوں کو کہا گیا کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو، یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں مل کر یہ عرض کریں کہ یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار کردے، یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجر ان کے عیسائیوں کو دعوت مباہلہ دی گئی تھی، جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی، عیسائیوں کی طرح، جھوٹے تھے، اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)