وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ اس طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں جو شکر کرتے ہیں۔
1- علاوہ ازیں یہ تمثیل بھی ہوسکتی ہے ۔ ”الْبَلَدُ الطَّيِّبُ“ سے مراد سریع الفہم اور”الْبَلَدُ الخَبِيثُ“ سے کند ذہن، وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل اور اس کے برعکس دل ۔ قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان ۔ مومن، پاکیزہ انسان اور وعظ ونصیحت قبول کرنے والا دل بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح، آیات الٰہی کو سن کر ایمان وعمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے ۔ اسی کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمایا کہ ”مجھے اللہ تعالیٰ نے جو علم وہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال اس موسلادھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ اس کے جو حصے زرخیز تھے، انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا (یعنی بھرپور پیداوار دی) اور اس کے بعض حصے سخت تھے، جنہوں نے پانی کو تو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا) تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا ۔ کھیتوں کو بھی سیراب کیا اور کاشت کاری کی اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا، جس نے پانی روکا اور نہ کچھ اگایا ۔ پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا، اس سے اس نے نفع اٹھایا، پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا“۔ (صحيح بخاری ، كتاب العلم، باب فضل من علم وعلَّم)