وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو اس کے علاوہ ہے اسے وہ نہیں مانتے، حالانکہ وہی حق ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے۔ کہہ دے پھر اس سے پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے، اگر تم مومن تھے؟
خود پسند یہودی مورد عتاب یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں توراۃ انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود ہے ، جیسے فرمایا «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 146 ) یعنی اہل کتاب آپ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں پس آپ سے انکار کا مطلب توراۃ انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے ۔ اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا توراۃ اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا ؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر ۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو ۔ پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ علیہ السلام سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا ، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنا دینا ، بادلوں کا سایہ کرنا ، من و سلویٰ کا اترنا ، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن ادھر موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود توراۃ پر اور خود موسیٰ علیہ السلام پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا ؟ کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں ؟ «مِن بَعْدِہِ» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے طُور پر جانے کے بعد ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے «وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَیٰ مِن بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہُ خُوَارٌ» ( 7-الاعراف-148 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گوسالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا جیسے فرمایا «وَلَمَّا سُقِطَ فِی أَیْدِیہِمْ وَرَأَوْا أَنَّہُمْ قَدْ ضَلٰوا قَالُوا لَئِن لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبٰنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ» ( 7-الاعراف-149 ) یعنی جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہو جائیں گے ۔