قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ
فرمایا اس سے نکل جا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا، بے شک ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا میں ضرور ہی جہنم کو تم سب سے بھروں گا۔
اللہ تعالیٰ کے نافرمان جہنم کا ایندھن ہیں اس پر اللہ کی لعنت نازل ہوتی ہے ، رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے ۔ فرشتوں کی جماعت سے الگ کر دیا جاتا ہے ۔ عیب دار کر کے اتار دیا جاتا ہے ۔ لفظ «مَذْءُومًا» ماخوذ ہے ، «ذام» اور «ذیم» سے ۔ یہ لفظ بہ نسبت لفظ «ذم» کے زیادہ مبالغے والا ہے ، پس اس کے معنی عیب دار کے ہوئے اور «مَّدْحُورً» کے معنی دور کئے ہوئے کے ہیں ۔ مقصد دونوں سے ایک ہی ہے ۔ پس یہ ذلیل ہو کر اللہ کے غضب میں مبتلا ہو کر نیچے اتار دیا گیا ۔ اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا ۔ اور فرمایا گیا کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ اذْہَبْ فَمَن تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَاءً مَّوفُورًا ـ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَأَجْلِبْ عَلَیْہِم بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِی الاٌّمْوَلِ وَالاٌّوْلَـدِ وَعِدْہُمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَـنُ إِلاَّ غُرُورًا ـ إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَـنٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلاً» ۱؎ (17-الإسراء:63-65) ’ تمہاری سب کی سزا جہنم ہے تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہو جا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آ جائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں ۔ ‘