سورة الاعراف - آیت 10

وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھیں زمین میں ٹھکانا دیا اور ہم نے تمھارے لیے اس میں زندگی کے سامان بنائے، بہت کم تم شکر کرتے ہو۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالیٰ کے احسانات اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں ، اس میں چشمے جاری کر دیئے ، اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سی نفع کی چیزیں اس لیے پیدا فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لیے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے ۔ ایک آیت میں فرمان ہے «وَإِن تَعُدٰوا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) یعنی ’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے ۔ ‘ «مَعَایِشَ» تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج «مَعَاۤیِـْش» پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے ۔ اس لیے کہ «مَعَایِشَ» جمع ہے «مَعِیْشَتہٌ» کی ۔ اس کا باب «عَاشَ یَعِیْشُ عَیْشًا» ہے ۔ «مَعِیْشَتہٌ» کی اصل «مَعِیْشَتہٌ» ہے ۔ کسرہ «یا» پر تقلیل تھا ، نقل کر کے ماقبل کو دیا «مَعِیْشَتہٌ» ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسرہ «یا» پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا ۔ پس «مَفَاعِلٌ» کے وزن پر «مَعَایِشَ» ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں «یا» اصلی ہے ۔ بخلاف «مدائن» ، «صحائف» اور «بصائر» کے جو «مدینہ» ، «صحیفہ» اور «بصیرہ» کی جمع ہے باب «مدن» ، «صحف» اور «ابصر» سے ۔ ان میں چونکہ «یا» زائد ہے اس لیے ہمزہ دی جاتی ہے اور «مفاعل» کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔