ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
ہماری آنکھیں اور اللہ جل شانہ جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ، یہی تمہارا پالنہار ہے ، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو -اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں ، اس کی بیوی نہیں ، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں ، وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4855) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { جو کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ رضی اللہ عنہا نے یہی آیت «لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ» (6-الأنعام:103) پڑھی } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے برخلاف مروی ہے { انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا } -۱؎ (صحیح مسلم:176) سورۃ النجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اسمعیل بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا “ اور حضرات فرماتے ہیں ” یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مومنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے “ ۔ ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے آیت «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:22-23) یعنی ’ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَیِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ» ۱؎ (83۔المطففین:15) یعنی ’ کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ‘ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حجاب نہیں ہوگا “ ، متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ ابوسعید ، ابوہریرہ ، انس ، جریج ، صہیب ، بلال رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ { مومن اللہ تبارک و تعالیٰ کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے } } ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین ! یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لیے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مومن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ تو بے مثل ہے ۔ ابن علیہ فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک اخص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہٰ کر لینے کو اور عدم احاطہٰ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہٰ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا -احاطہٰ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ «یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا» (20-طہ:110) ۔ صحیح مسلم میں ہے { «لَا أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ» یعنی { اے اللہ میں تیری ثناء کا احاطہٰ نہیں کر سکتا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:486) لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثناء کا نہ کرنا نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ آیت «لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ۡ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (6-الأنعام:103) تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا “ ؟ اس نے کہا ہاں ، فرمایا ” پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ “ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کر لیں “ ۔ چنانچہ ابن جریر میں آیت «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:22) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہٰ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہوگی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے { اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجودہ ہوں تاہم ناممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہٰ کرسکیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7736/4:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا “ ، تو میں نے کہا ” کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’ اللہ کو آنکھیں نہیں پاسکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ‘ ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا ” یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کرسکتا “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3279،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:179) اگلی کتابوں میں ہے کہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ ’ اے موسیٰ [ علیہ السلام ] جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا ‘ ۔ خود قرآن میں ہے کہ «فَلَمَّا تَجَلَّیٰ رَبٰہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسَیٰ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:143) ’ جب تیرے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے افاقہ کے بعد کہنے لگے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ‘ ۔ یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مومنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” آخرت میں دیدار ہوگا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا “ اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی روایت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لیے بھی ناممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے آیت «اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (67-الملک:14) ’ کیا وہ نہیں جانے گا جو پیدا کرتا ہے جو لطف و کرم والا اور بڑی خبرداری والا ہے ‘ اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ ولا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جیسے کہ لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ «یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ بیٹا اگر کوئی بھلائی یا برائی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو خواہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لائے گا اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ‘ ۔