سورة الانعام - آیت 100

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنا دیا، حالانکہ اس نے انھیں پیدا کیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں کچھ جانے بغیر تراش لیں، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شیطانی وعدے دھوکہ ہیں جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرتے تھے جنات کو پوجتے تھے ان پر انکار فرما رہا ہے -ان کے کفر و شرک سے اپنی بیزاری کا اعلان فرماتا ہے اگر کوئی کہے کہ جنوں کی عبادت کیسے ہوئی وہ تو بتوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے تو جواب یہ ہے کہ بت پرستی کے سکھانے والے جنات ہی تھے ۔ جیسے خود قرآن کریم میں ہے آیت «إِن یَدْعُونَ مِن دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن یَدْعُونَ إِلَّا شَیْطَانًا مَّرِیدًا لَّعَنَہُ اللہُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا وَلَأُضِلَّنَّہُمْ وَلَأُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَآمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِّن دُونِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مٰبِینًا یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیہِمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا» (4-النساء:120-117) یعنی ’ یہ لوگ اللہ کے سوا جنہیں پکار رہے ہیں وہ سب عورتیں ہیں اور یہ سوائے سرکش ملعون شیطان کے اور کسی کو نہیں پکارتے وہ تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کچھ نہ کچھ انسانوں کو تو میں اپنا کر ہی لوں گا انہیں بہکا کر سبز باغ دکھا کر اپنا مطیع بنا لوں گا ۔ پھر تو وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کاٹ کر چھوڑ دیں گے ۔ اللہ کی پیدا کردہ ہئیت کو بگاڑنے لگیں گے ۔ حقیقتاً اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی دوستی کرنے والے کے نقصان میں کیا شک ہے ؟ شیطانی وعدے تو صرف دھوکے بازیاں ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے آیت «اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ للظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا» (18-الکہف:50) ’ کیا تم مجھے چھوڑ کر شیطان اور اولاد شیطان کو اپنا ولی بناتے ہو ؟ ‘ ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا «یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا» ۱؎ (19 ۔ مریم:44) ’ میرے باپ ! شیطان کی پرستش نہ کرو وہ تو اللہ کا نافرمان ہے ‘ ۔ سورۃ یٰسین میں ہے کہ «أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مٰبِینٌ وَأَنِ اعْبُدُونِی ہٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیمٌ» ۱؎ (36-یس:60-61) ’ کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ اے اولاد آدم تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے ‘ ۔ قیامت کے دن فرشتے بھی کہیں گے آیت «قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیٰنَا مِنْ دُوْنِہِمْ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اَکْثَرُہُمْ بِہِمْ مٰؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (34 ۔ سبأ:41) یعنی ’ تو پاک ہے یہ نہیں بلکہ سچا والی ہمارا تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنوں کو پوجتے تھے ان میں سے اکثر لوگوں کا ان پر ایمان تھا ‘ ۔ پس یہاں فرمایا ہے کہ ’ انہوں نے جنات کی پرستش شروع کر دی حالانکہ پرستش کے لیے صرف اللہ ہے وہ سب کا خالق ہے ‘ ۔ جب خالق وہی ہے تو معبود بھی وہی ہے ۔ جیسے خلیل اللہ نے علیہ السلام فرمایا آیت «قَالَ اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» (37-الصافات:96-95) یعنی ’ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں خود گھڑ لیتے ہو حالانکہ تمہارے اور تمہارے تمام کاموں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ‘ ۔ یعنی معبود وہی ہے جو خالق ہے ۔ پھر ان لوگوں کی حماقت و ضلالت بیان ہو رہی ہے ، جو اللہ کی اولاد بیٹے بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ یہودی عزیر علیہ السلام کو اور نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جبکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ یہ سب ان کی من گھڑت اور خود تراشیدہ بات تھی اور محض غلط اور جھوٹ تھا ۔ حقیقت سے بہت دور نرا بہتان باندھا تھا اور بےسمجھی سے اللہ کی شان کے خلاف ایک زبان سے اپنی جہالت سے کہہ دیا تھا بھلا اللہ کو بیٹوں اور بیٹیوں سے کیا واسطہ نہ اس کی اولاد نہ اس کی بیوی نہ اس کی کفو کا کوئی ۔ وہ سب کا خالق وہ کسی کی شرکت سے پاک وہ کسی کی حصہ داری سے پاک ، یہ گمراہ جو کہہ رہے ہیں سب سے وہ پاک اور برتر سب سے دور اور بالا تر ہے ۔