قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
کہہ کون تمھیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے؟ تم اسے گڑ گڑا کر اور خفیہ طریقے سے پکارتے ہو کہ بے شک اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
احسان فراموش نہ بنو اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ ’ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ‘ ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی آیت «وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ» ۱؎ (17-الاسراء:67) میں اور آیت «ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» ۱؎ (10-یونس:22) میں اور آیت «اَمَّنْ یَّہْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یٰرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:63) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ «تَضَرٰعًا وَخُفْیَۃً» کے معنی «جَہْرًا أَوْ سِرًّا» یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے ‘ ۔ جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت «رَبٰکُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَکُمُ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمْ رَحِـیْمًا وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنسَانُ کَفُورًا أَفَأَمِنتُمْ أَن یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا أَمْ أَمِنتُمْ أَن یُعِیدَکُمْ فِیہِ تَارَۃً أُخْرَیٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُم بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہِ تَبِیعًا» ۱؎ (17 ۔ الاسراء:69-66) تک بیان فرمایا ۔ یعنی ’ تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لیے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی ناشکرا ہے کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ‘ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس آیت میں اسی امت کو ڈرایا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی “ ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { «یَلْبِسَکُمْ» کے معنی «یَخْلِطَکُمْ» کے ہیں یہ لفظ «اِلْتِبَاسِ» سے ماخوذ ہے «شِیَعًا» کے معنی «فِرَقًا» کے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ’ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے ‘ ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ { یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں } ، اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ ’ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے ‘ ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { یہ بہت زیادہ ہلکا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4628) ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ { اگر اس آپس کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:32/3:ضعیف) مسند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں }} ۔ ۱؎ (مسند احمد:171/1:ضعیف) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی مناجات کی اور فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ میری تمام امت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، پھر میں نے دعا کی کہ میری عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے ، اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی } } ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2890) مسند احمد میں ہے { سیدنا عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ ” جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ “ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا ” جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں ؟ “ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے ، دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ یہ سن کر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلی جائیں گی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:445/5:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { حضور علیہ السلام بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبویا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا } ۔ ۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:285/6:ضعیف) ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے { معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی لمبی نماز پڑھی ، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑی لمبی نماز آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یہ نماز رغبت ور ڈر کی نماز تھی } ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1724:صحیح) نسائی وغیرہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کی آٹھ رکعت پڑھیں اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:920/1:صحیح لغیرہ) نسائی وعیرہ میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو خباب بن ارث رضی اللہ عنہ نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ { اگلی امتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری امت پر عام طور پر نہ آئیں } } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) تفسیر ابن جریر میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13370:صحیح بالشواہد) مسند احمد میں ہے { رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میرے لیے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لیے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لیے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ ، میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں } ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:123/4:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:4112:صحیح بالشواہد) مسند احمد کی حدیث میں ہے { میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:396/6:صحیح) اور حدیث میں ہے { دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی } ۔ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف) { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر کے اٹھ کھرے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری امت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا ، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف) سیدنا ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { دو چیزیں اس امت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچیس [۲۵] سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/5:ضعیف) حسن رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت «قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ» ۱؎ (6۔الأنعام:65) اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نوکر چاکر ہیں “ یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ» ۱؎ (67-الملک:16) پیش ہو سکتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے { میری امت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہوگا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2152،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جا بجا آئیں گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ، ایک حدیث میں ہے { یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے } (سنن ترمذی:2641،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ، ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، ’ دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ‘ ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو ! میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو } ، اس پر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں یہی ہوگا } ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت «وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقٰ قُل لَّسْتُ عَلَیْکُم بِوَکِیلٍ» ۱؎ (6-الانعام:66) ، اتری } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13381:مرسل و ضعیف)