قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
بے شک ہم جانتے ہیں کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ یقیناً تجھے وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں، تو بے شک وہ تجھے نہیں جھٹلاتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔
حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں ‘ ۔ فرماتا ہے کہ ’ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو ‘ ، «فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ» ۱؎ (34-فاطر:8) اور «لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:3) اور «فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَیٰ آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہٰذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا» ۱؎ (18-الکہف:6) ’ کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لیے حسرت و افسوس کریں گے ؟ سمجھا دیجئیے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے ۔ یہ لوگ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ‘ ۔ چنانجہ ابوجہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے ، مستدرک حاکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3064،قال الشیخ الألبانی:اسنادہ ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابوجہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بے دین سے تو مصافحہ کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے ۔ ہم نے آج تک بنی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7239/4:مرسل و ضعیف) الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے ۔ امام محمد بن اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ ” زہری رحمتہ اللہ علیہ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابوجہل ، ابوسفیان ، صحر بن حرب ، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بے خبری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی قرآن سننا ہے ، کہتے ہیں کہ ” ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے ۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں ؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سننے کے لیے چپ چاپ آ گئے تھے ۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہو جائیں گے ۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کرکے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں ؟ میرے جانے کی کسے خبر ہوگی ؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا ۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہو گیا ۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہو سکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہو گیا ، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے ۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابوسفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابوحنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو ! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں ۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے ، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابوجہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے ؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ ہے کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کشی ہو رہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے ۔ اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے ، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے ۔ اخنس مایوس ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:206/2:مرسل و ضعیف) اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو ، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے ، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم [ یعنی ابوجہل ] سے بھی ملتا ہوں ۔ سنو ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آگئی تو ان میں تو تم ہی ہو ، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا ۔ اب اخنس تنہائی میں ابوجہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے ؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا ۔ اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل سچے اور یقیناً صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا ۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھریرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہو گئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لیے کون سی فضیلت باقی رہ گئی ؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، پس آیات اللہ سے مراد ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین مغلوب ہوں گے ۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہو گی ۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37۔الصافات:173-171) یعنی ’ ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ‘ اور آیت میں فرماتا ہے «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے ‘ ۔ ’ ان نبیوں کے اکثر قصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان ہو چکے ہیں ان کے حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ چکے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھودلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے ۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھاتا پھرے ، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو ، تم غم کر کے رہو ، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا ، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیئے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّیٰ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ» ۱؎ (10-یونس:99) ’ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ ’ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی کی رفیق ہوگئی ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہو گی جو کان لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے ، جیسے اور آیت میں ہے کہ «لِّیُنذِرَ مَن کَانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکَافِرِینَ» ۱؎ (36-یس:70) ’ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو ، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہو چکا ہے ‘ ۔ ’ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے ‘ ۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی ۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے ۔