الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقیناً اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہے۔
ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے؟ حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ ’ کل ستھری چیزیں حلال ہیں ‘ ، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابوامامہ ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، عکرمہ ، عطاء ، حسن ، مکحول ، ابراہیم ، نخعی ، سدی ، مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہم یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے ، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:573/9) علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے ، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے ۔ صحیح حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی ، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا ، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3153) اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے ، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی ۔ اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ { خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شانے کا گوشت پسند ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا ، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی تھے ، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے ، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا ، جس کا نام زینب تھا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4510،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) وجہ دلالت یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کر لیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ { ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2092) مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو ؟ اس لیے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھا لیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم و شیث علیہم السلام وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے ۔ جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب ، تنوخ بہرا ، جذام لحم ، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ ، اس لیے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی “ ۔ ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے ، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کر دیا گیا ہے ، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے ۔ ہاں ابوثور ابراہیم بن خالد کلبی رحمہ اللہ جو شافعی اور احمد رحمہ اللہ علیہم کے ساتھیوں میں سے تھے ، اس کے خلاف ہیں ، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے ۔ یہاں تک کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ ” ابوثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ “ ۔ ممکن ہے ابوثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ { مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو } ۔ ۱؎ (موطا:42:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے ، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ { ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3156) علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابوثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں ، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لیے حرام ثابت ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے ‘ یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو ۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو ، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے ، یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھا لیتے ہو ۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے ، { جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے } تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بدلہ چکا دیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1350) ہاں ایک حدیث میں ہے کہ { مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیزگاروں کے اور کسی کو نہ کھلا۱ } ؎ (سنن ابوداود:4832،قال الشیخ الألبانی:حسن) اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہیئے ، ہو سکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضیلت کے ہو ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ‘ یہ بطور تمہید کے ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے ‘ ۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد «مُحْصَنَاتُ» سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں ۔ یہ قول مجاہد رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اور مجاہد رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں کہ ” «مُحْصَنَاتُ» سے آزاد مراد ہیں “ اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لیے جا سکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار ، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے ۔ جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے ۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ «مُحْصَنَاتُ» سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں ، جیسے دوسری آیت میں «وَالْمُحْصَنَاتُ» کے ساتھ ہی آیت «مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ» ۱؎ (4-النساء:25) آیا ہے ۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو ؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ «مُحْصَنَاتُ» سے مراد پاک دامن ہے ۔ ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے «قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:29) ، یعنی ’ ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے ‘ ۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے ” اس سے بڑا شرک کیا ہو گا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ [ علیہ السلام ] ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت «وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مٰؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مٰشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا» ۱؎ (2-البقرۃ:221) ، یعنی ’ مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنہم ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورۃ البقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کر دیا ۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں ، اس لیے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت «لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُوا» ۱؎ (98-البینۃ:1) اور «وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا» ۱؎ (3-آل عمران:20) ۔ پھر فرماتا ہے ’ جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو ‘ ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا ۔ (ابن جریر) پھر فرماتا ہے ’ تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ ‘ ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں ۔ سورۃ نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے ۔ حضرت امام احمد رحمہ اللہ اسی طرف گئے ہیں کہ ” زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں “ ، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ ” بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی نا جائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آ جائیں “ ۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے { کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کر سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2052،قال الشیخ الألبانی:صحیح) خلیفتہ المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ” میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں “ ۔ اس پر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ” اے امیر المؤمنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے “ ۔ اس مسئلے کو ہم آیت «اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً ۡ وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (24-النور:3) ، کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں ‘ ۔